پاراچنار : سرکاری محکموں کی ناقص کارکردگی اور رشوت ستانی

پاراچنار میں تمام محکموں، کاروباری مراکز بشمول مرغی فروشوں، قصابوں، نانبائیوں، حجام، ہوٹلوں اور ان کے مالکان کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ جو جہاں، جس طرح لوٹ مار کرسکتا ہے، کوئی پرسان حال نہیں بلکہ انہیں ڈھیل ہی اس لئے دی جاتی ہے کہ غریب عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہو اور معاشرہ افراتفری کا شکار ہو۔ گذشتہ دنوں محکمہ تعلیم پاراچنار میں رشوت ستانی کا ایک سکینڈل سامنے آیا۔ تاہم حقیقت سامنے آنے کے باوجود ذمہ دار حکام اور قوم سمیت سب نے اس پر چپ سادھ لی بلکہ جس محکمے کے ذمہ دار افسر کا اس سلسلے میں کارروائی کرنے کا حق بنتا ہے، انتظامیہ کے ایک اور اہم ذمہ دار افسر نے انہیں کسی قسم کی کارروائی کرنے سے روک دیا ہے اور واضح طور پر ہدایات دی ہیں کہ جن درجنوں اساتذہ کے تبادلے جعلی دستخطوں اور بھاری رقوم لیکر کئے گئے ہیں، انہیں کینسل نہ کیا جائے۔

کیا یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ ایک مقدس پیشے سے وابستہ اساتذہ کو بے جا تنگ کرنے کے کچھ بھی مقاصد ہوں، قابل مذمت اور قابل سزا ہیں۔ بدقسمتی سے یہاں ہر محکمے میں ٹاوٹ موجود ہیں، جو افسران کو خوش رکھنے کے لئے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور پھر یہ لازمی اور یقینی بات ہے کہ یہ افسر نما لٹیرے ان کی پشت پر کھڑے ہونگے اور اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے متعلقہ محکمے کو ان راشی اہلکاروں کے خلاف کارروائی سے روکیں گے۔ پتہ نہیں یہ عمران خان کی حکومت کے ثمرات ہیں یا محض پاراچنار کے بے یار و مددگار غریب عوام کے خلاف سازش ہے۔

اساتذہ برادری نے محکمہ تعلیم کے پی کے ذمہ دار حکام اور خصوصی طور پر ڈائریکٹر محکمہ تعلیم کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہوئے ان سے اس سکینڈل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کا بار بار مطالبہ کیا۔ مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اگر تعلیم جیسے مقدس اور قابل احترام پیشے اور محکمے کو یوں مادر پدر آزاد چھوڑ دیا گیا تو نئے ضم شدہ اضلاع میں ہر چیز کا پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ بدقسمتی سے یہاں نظام بدلا، مگر اس سے معاشرے میں بہتری کے بجائے مزید ابتری آگئی۔ خوشحالی کے بجائے لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا۔ جس کی وجہ سے لوگ پرانے ظالمانہ نظام کو بہتر کہنے پر مجبور ہوگئے۔ خیال رہے کہ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پرانا نظام اس سے بہتر تھا بلکہ یہ خامی نظام چلانے والوں کی ہے کہ آج جس نطام سے چھٹکارا پانے کے لئے قبائلی اضلاع کے عوام نے جدوجہد کی، قربانیاں دیں۔ آج وہی لوگ پرانے قبیح نظام کے گن گارہے ہیں۔

یہ قبائل کی بدقسمتی ہے۔ قبائلی علاقوں میں خرابیاں اس سے پہلے بھی موجود تھیں، مگر اب یہ خرابیاں ڈنکے کی چوٹ پر کی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں یونینز، یونین میں شامل افراد کے مسائل کے حل کے  لئے بنائی جاتی ہیں، مگر یہاں کے کرپٹ افراد یونین ہی کے ذریعے کرپشن کرتے ہیں۔ قصابوں، ہوٹل والوں مرغی فروشوں وغیرہ وغیرہ نے یونین بناکر انہی کے ذریعے یونین میں شامل افراد سے رشوتیں (بھتہ کی صورت میں) لی جاتی ہیں، جو کہ لاکھوں میں ہوتی ہیں اور پھر اس یونین کی برکت سے کاروباری افراد عوام کو جی بھر کر لوٹ لیتے ہیں۔ لوٹ کے اس مال میں انتظامیہ کو بھی بھتہ کی شکل میں برابر حصہ ان کے کارندوں کے ذریعے ملتا رہتا ہے، مقامی کارندہ بھی خوش اور مرغی فروشوں، قصابوں، نانبائیوں کے بھی وارے نیارے۔ بھاڑ میں جائے عوام بیچاری۔ پاراچنار سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع صدہ میں ایک (برائیلر) مرغی 730 روپے میں دستیاب ہے، جبکہ وہی مرغی یہاں پاراچنار میں 1000 روپے میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ فروخت ہو رہی ہے۔

اسی طرح گوشت اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی واضح فرق پایا جاتا ہے، جبکہ پوچھنے والا کوئی نہیں۔ نہ حکومتی سطح پر اور نہ ہی عوامی سطح پر۔ ایک وقت تھا کہ قصائی، نانبائی وغیرہ ریٹ از خود بڑھانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اب خیر سے یونین کے مشر (نمائندہ) کے ذریعے لب جب ہوتا ہے۔ خطیر رقوم اکٹھی کی جاتی ہیں اور نذرانہ کی ادائیگی کے بعد خاموشی سے ریٹ بڑھایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اضلاع پایاں میں ایسا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کی ایک تازہ مثال پشاور کے نانبائیوں اور حکومت کے مابین روٹی کے ریٹ اور وزن پر کئی ماہ سے جاری تنازعہ ہے۔ نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع کے علاوہ پورے پاکستان میں سرکاری سطح پر ریٹ کنٹرول کرنے کے لئے باقاعدہ مانیٹرنگ سسٹم موجود ہے، مگر یہاں دور دور تک ایسا کوئی ادارہ دکھائی نہیں دیتا، یا اگر ہے بھی اور ہمیں علم نہیں، تو ابھی تک غیر فعال ہی ہوگا کہ اس کی کارکردگی ہمیں نظر نہیں آرہی ہے۔ ایسے میں عوام جائیں تو کہاں جائیں، کس سے فریاد کریں، کسے اپنا مسیحا سمجھیں۔