”راؤ انوار نے حکم دیا تھا”

انسداد دہشت گردی عدالت میں استغاثہ کے ایک گواہ نے بیان دیا ہے کہ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کو پولیس نے اٹھایا، اسے ‘لاپتہ’ کر دیا اور جنوری میں ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے حکم پر ایک ‘جعلی’ مقابلے میں مارا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق ایس ایس پی اور اس کے تقریباً دو درجن ماتحت افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے نسیم اللہ محسود جو نقیب کے نام سے مشہور ہے، سمیت 3 دیگر افراد صابر، نذر جان اور اسحٰق کو 13 جنوری 2018 کو ‘طالبان دہشت گرد’ قرار دے کر ‘جعلی’ انکاؤنٹر میں قتل کیا۔

کیس میں انور، قمر احمد، محمد یٰسین، سپرد حسین اور خضر حیات ضمانت پر جبکہ دیگر 13 افراد، اللہ یار کاکا، محمد اقبال، ارشاد علی، غلام نازک، عبدالعلی، شفیق احمد، شکیل، محمد انر، خیر محمد، فیصل محمود، علی اکبر، رئیس عباس زیدی اور سید عمران کاظمی زیر حراست ہیں۔

کیس پر اے ٹی سی 3 کے جج نے سماعت کی جو سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمہ چلا رہے ہیں، سرکاری وکیل نے اس کیس میں اپنی گواہی ریکارڈ کرنے کے لیے نجی گواہ کو پیش کیا۔

گواہ نے بتایا کہ ان کا تعلق متوفی کے گاؤں سے ہے، نقیب اللہ کی گرفتاری کی اطلاع ملنے کے بعد وہ پاکستان تحریک انصاف کے ایک مقامی رہنما اور دیگر کے ہمراہ عباس ٹاون میں پولیس چوکی گئے تھے جہاں انہیں معلوم ہوا کہ نقیب اللہ کو راؤ انوار کے حکم پر کہیں اور منتقل کر دیا گیا ہے بعدازاں 13 جنوری 2018 کو انہیں اطلاع ملی تھی کہ نقیب ایک ‘مقابلے’ میں مارا گیا ہے، نقیب اللہ کے ایک کزن نے اس کی لاش حاصل کی اور اس کی نماز جنازہ سہراب گوٹھ میں ادا کی گئی۔

دوسری جانب سابق ایس ایس پی کے دفاعی وکیل ایڈووکیٹ عامر منصوب قریشی نے سے جرح کی اور مؤقف اپنایا کہ شکایت کنندہ محمد خان کا نقیب اللہ نامی کوئی بیٹا نہیں ہے کیونکہ اس کے بیٹے کا نام نسیم اللہ تھا۔

وکیل نے دعوی کیا کہ شکایت کنندہ کے مطابق مبینہ طور پر متاثرہ شخص کو پولیس چوکی میں تقریباً 50 دن اغوا کیا گیا تھا اور سوال کیا کہ گواہ کو معلوم ہونے کے باوجود اس کے اغوا کے خلاف پولیس میں شکایت کیوں نہیں کی گئی۔

گواہی ریکارڈ کرنے کے بعد جج نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ وہ اپنی شہادتیں ریکارڈ کرنے کے لیے 5 دیگر گواہان کو پیش کریں اور کیس 10 ستمبر تک کے لیے ملتوی کر دیا۔

جج نے عدالت کے پچھلے حکم کی تعمیل نہ کرنے پر برہمی کا بھی اظہار کیا جس میں تفتیشی افسر (آئی او) کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ دو گواہان کو اپنے بیانات ریکارڈ کرنے کے لیے عدالت کے سامنے پیش کریں۔

واضح رہے کہ کیس میں امان اللہ مروت، شیخ محمد شعیب، گاڈا حسین، محسن عباس، صداقت حسین شاہ، رانا شمیم اور ریاض کو مفرور مجرم قرار دیا گیا ہے اور ان کی گرفتاری کے لئے وارنٹ جاری کیے جا چکے ہیں۔

استغاثہ کے مطابق زیر تفتیش پولیس عہدیداروں نے تاوان کے لیے نقیب اللہ محسود اور تین دیگر افراد کو اغوا کیا اور ایک جعلی مقابلے میں مارا اور بعد میں انہیں طالبان عسکریت پسند بھی قرار دے دیا تھا۔

27 سالہ نقیب اللہ محسود کے قتل پر سول سوسائٹی کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا اور اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان ہلاکتوں کا از خود نوٹس لیا تھا۔

راؤ انوار کے بار بار متاثرین کو عسکریت پسند بتانے کے باوجود ٹرائل کورٹ نے نقیب اللہ اور تین دیگر متاثرین کو بے گناہ قرار دیا اور ان کے خلاف درج مقدمات کو ختم کردیا تھا۔

نوجوان نقیب اللہ محسود کی سوشل میڈیا پروفائل پر وہ ماڈلنگ میں دلچسپی رکھنے والے لبرل نوجوان کے طور پر سامنے آئے تھے۔

مارچ 2019 میں راؤ انوار اور دیگر کے خلاف جعلی انکاؤنٹر اور متاثرین کو دہشت گرد قرار دینے، ان سے ہتھیار اور دھماکا خیز مواد بر آمد کرنے کے جھوٹے الزامات پر فرد جرم عائد کی تھی۔

ابتدائی طور پر مقتول کے والد محمد خان نے پولیس حکام کے خلاف شکایت درج کروائی تھی تاہم اس کی ہلاکت کے بعد ان کے بیٹے اس کیس میں شکایت کنندہ بن گئے تھے۔