بونیر کے لوگوں کی تضحیک گابا پبلشرز کو مہنگی پڑ گئی

کراچی میں نصابی کتابیں چھاپنے والی کمپنی گابا پبلشرز کے جانب سے درسی کتاب کے ایک مضمون میں بونیر کے عوام کے لئے احمق لفظ کے استعمال پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

بونیر سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع اور کراچی میں اس نسلی و لسانی تعصب کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہو گئی ہے۔

اس سلسلے میں آج ضلع بونیر میں جماعت اسلامی یوتھ، عوامی نیشنل پارٹی اور عوامی ورکر پارٹی کی جانب سے مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اس کے علاوہ کراچی میں پریس کلب کے سامنے پختونوں کی مختلف تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کی جانب سے بھی احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ گابا پبلشرز کیخلاف فی الفور کارروائی عمل میں لائی جائے، جن سکولوں میں یہ کتاب پڑھائی جا رہی ہے ان تمام سکولوں سے فوراً اس کو اٹھایا جائے اور جو افراد اس میں ملوث ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

گابا پبلشرز کی اس کتاب کے خلاف احتجاجی تحریک میں بونیر کے عوام کے علاوہ زیادہ تر پختون قوم پرست نظر آ رہے ہیں جن میں عوامی نیشنل پارٹی کے عمائدین اور ورکرز سرفہرست ہیں۔

ٹرائبل پریس  کے ساتھ بات چیت میں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری ثقافت میاں سید لائق باچا نے کہا ہے گابا پبلشرز کی جانب سے انگلش کے درسی کتب میں بونیر کے غیور عوام کے حوالے سے جو مضمون شائع ہوا ہے اس پر لاکھوں بونیریوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔

ان کے مطابق گابا پبلشرز نے فرنگی دور کی یاد تازہ کی جس طرح اس دور میں انگریز سرکار کی جو قوم مخالف کرتا تھا تو ان کیخلاف اس طرح کے پروپیگنڈے کئے جاتے تھے۔

سید لائق باچا نے کہا کہ اس ضمن میں میری گابا پبلشرز کے ڈائریکٹر محمد راشد کے ساتھ تفصیلی بات ہوئی اور ضلع بونیر کے عوام کے جذبات کے حوالے سے ان کو خبردار کیا۔

ان کے مطابق گابا پبلیشرز نے مذکورہ کتاب مارکیٹ سے اٹھانے اور متعلقہ مضمون ہٹانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

سوشل میڈیا پر تحریک

گابا پبلشرز کا یہ مضمون سب سے پہلے سوشل میڈیا پر شیئر ہوا جس کے بعد لوگوں کو اس حوالے سے مزید معلومات ملتی گئیں اور احتجاجی تحریک کا آغاز کیا گیا۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر بھی پبلشرز پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی نامور شخصیات نے بھی اس حوالے سے اپنی آراء شیئر کی ہیں۔

نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاالدین یوسفزئی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے متعلقہ کتاب کا صفحہ پوسٹ کیا ہے اور کہا ہے کہ ”میرے آبا ؤاجداد کا تعلق بونیر کے علاقہ سلارزئی سے ہے۔ ہمارے پردادا عبدالغفار (المعروف اشاڑی بابا) اڑھائی سو سال پہلے بونیر سے شانگہ منتقل ہوئے تھے۔ بونیر سے اس نسبت پر مجھے فخر ہے۔”

گابا پبلشرز خیبر پختونخوا میں غیرقانونی

عوام کی جانب سے سوشل میڈیا اور سڑکوں پر احتجاجی تحریک چلنے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے بھی گابا پبلشرز کے اس فعل پر سخت تنقید کی ہے۔ صوبائی مشیر اطلاعات کامران بنگش نے کہا ہے کہ پبلشر نے اس مضمون میں بونیر کے لوگوں کی تضحیک کی ہے اور انہیں نسلی و لسانی تعصب کا نشانہ بنایا ہے جو کہ قابل افسوس ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ گابا پبلشرز خیبر پختوںوا ٹیکسٹ بک بورڈ کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہے اور نہ ہی ان کی کوئی کتاب سرکاری سکولوں میں پڑھائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر تعلیم نے اس حوالے سے انکوائری کا بھی حکم دیا ہے اور خیبر پختونخوا حکومت کے بس میں جو بھی ہوا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

پارلیمان میں مضمون کی گونج

سوشل میڈیا اور سڑکوں کے علاوہ بونیر کے عوام کی تضحیک سے متعلق مضمون کی پارلیمان میں بھی گونج سنائی دے رہی ہے۔ گذشتہ روز سینٹ میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد خان نے گابا پبلشرز کی جانب سے بونیر کے عوام کے حوالے انگریزی کی کتاب میں (سیون فولش مین) یعنی سات بے وقوف آدمی کے ٹائٹل کے ساتھ چھپے مضمون پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ اس میں بونیر کے غیور عوام کے لئے احمق اور بے وقوف جیسے الفاظ استعمال کرنا انتہائی گری ہوئی حرکت ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ بونیر کے عوام نے 1862 میں انگریزوں کے ساتھ امبیلا کی لڑائی لڑی تھی اس کا تذکرہ انگریز دور کے آخری گورنز والٹ کیرو نے اپنی کتاب ”دی پٹھان” میں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ بونیر کے عوام نے ہماری افواج کو دو مہینے تک امبیلہ کے مقام پر روکے رکھا تھا اور جنگ میں ناکامی یقینی ہو جانے کے بعد ہم نے کچھ خوانین کو خریدا جس کی وجہ سے ہم مکمل شکست کھانے سے بچ گئے اور ایک معاہدہ طے پا گیا کہ ہم بونیر کے معاملات میں عمل دخل نہیں کریں گے اور بونیر کی سرزمین پر قدم نہیں رکھیں گے۔

مشتاق احمد خان کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے لکھا ہے، اگر اس جنگ میں بونیری کامیاب ہو جاتے تو لاہور کے گونر ہاوس تک ان کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت پرانی روش ہے کہ جب کوئی قوم انگریز کی مخالفت کرتی تھی تو ان کے خلاف لطیفے مشہور کرائے جاتے تھے۔ سینیٹر مشتاق نے سینٹ میں بتایا کہ بونیر تصوف اور اولیا کی سرزمین ہے جہاں سے پورے خیبر پختونخوا اور خاص طور پر ملاکنڈ ڈویژن میں اسلام کی شمع روشن ہوئی ہے۔

مشتاق احمد خان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس ایشو پر کارروائی کی جائے اور جو عناصر اس میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ کے لئے سدباب ہو جائے۔

گابا کو نوٹس

اپنی تضحیک کے خلاف آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ کراچی میں بونیر تعلق سے رکھنے والے وکیل قادر خان اور پشاور پریس کلب کے سیکرٹری فنانس عزیز بونیری نے قانونی راستہ بھی اپنایا ہے اور گابا پبلیشر کو قانونی نوٹس بھیجے ہیں، جن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ گابا پبلشر نے انگریزی کی کتاب میں جو مضمون چھاپا ہے اس سے لاکھوں بونیریوں کی دل آزاری ہوئی ہے لہٰذا گابا پبلشرز فوری طور پر اس کتاب کی فروخت بند کرے اور مارکیٹ سے یہ کتاب اٹھا لے۔

ایڈوکیٹ قادر خان کے مطابق اگر گابا پبلشرز نے ایک ہفتے کے دوران جواب نہیں دیا تو قانون کے مطابق ادارے کے خلاف عدالتی کارروائی شروع ہو جائے گی۔

پشاور میں بھی بونیر سے تعلق رکھنے والے مخلف شعبوں کے لوگوں نے گابا پبلشر کو قانونی نوٹس بھیجے ہیں۔

گابا کی وضاحت

شدید تنقید کے بعد گزشتہ روز گابا پبلشرز نے بھی اس سلسلے میں وضاحت پیش کی اور کہا کہ یہ مضمون صرف ان کی کتاب میں نہیں چھپا بلکہ انٹرنیٹ پر موجود ہے اور مزید کئی پبلشرز کی کتابوں میں بھی شائع ہو چکا ہے۔، مضمون کے چھاپنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں تھا کہ کسی کی تضحیک ہو اور پھر بھی اگر اس سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ لوگ اس کے لئے معذرت خوا ہیں۔