صحافیوں و تاجروں کا لکی پولیس کیخلاف احتجاج کی دھمکی

گذشتہ روز لکی مروت کے نورنگ بازار میں پاسبان پلازہ کے سامنے پارکنگ کی جگہ میں پولیس کی جانب سے غیر قانونی طور پر دکانیں تعمیر کرنے کے خلاف تاجر برادری کی جانب سے پریس کانفرنس اور پرامن احتجاج کے دوران دکانداروں کے ساتھ ساتھ صحافیوں پر تشدد، گالیوں، دھمکیوں، موبائل فون چھیننے اور صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے جیسے مختلف مسائل کے حوالے سے ضلع لکی مروت کے صحافتی تنظیموں کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔

مقامی ہوٹل میں منعقدہ اجلاس میں ضلع بھر کے صحافیوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی، اجلاس کی صدارت صحافی رہنما طارق مروت اور ولید خان کر رہے تھے۔

اجلاس کے شرکاء نے شہریوں اور صحافیوں پر پولیس تشدد، گالیوں اور بدزبانی کی شدید مذمت کی اور اسے بدترین پولیس گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پریس کانفرنس کو بزور روکنا آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور آزادی صحافت پر براہ راست حملہ ہے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ اس وقت ضلع میں بدترین پولیس گردی جاری ہے، شہریوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر گرفتار کیا جاتا ہے اور شدید اذیت سے دوچار کیا جاتا ہے، پولیس جعلی مقابلوں اور ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں میں ملوث ہے، اجلاس میں پولیس تشدد کے واقعے پر پولیس کے اعلیٰ حکام کی خاموشی اور بے حسی پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا۔

اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ ایس ایچ او نورنگ دمساز اور واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں اور ایس ایچ او کے گارڈز کو بھی فوری معطل کرکے ضلع بدر کیا جائے اور واقعے کی شفاف تحقیقات کی جائیں، اس سلسلے میں بنیادی حقوق سلب کرنے، صحافتی فرائض سے روکنے اور پولیس گردی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔

شرکاء نے یہ فیصلہ کیا کہ افسوسناک واقعے اور پولیس تشدد کے خلاف اعلیٰ حکام کو خطوط لکھے جائیں گے اور پولیس گردی کےخلاف منگل 23 جون کو تھانہ سرائے نورنگ کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا جائے گا جس میں صحافیوں کے ساتھ سیاسی و تاجر تنظیموں کے رہنماء اور کارکن بھی شریک ہوں گے، تحریک کے اگلے مرحلے میں ڈی پی او لکی مروت، آر پی او بنوں اور آئی جی پی خیبر پختونخوا کے دفاتر کے سامنے احتجاجی کیمپ لگائے جائیں گے اور دھرنا دیا جائے گا جس میں پشاور پریس کلب سمیت جنوبی اضلاع کے پریس کلبوں اور صحافتی تنظیموں کے رہنماء بھی شریک ہوں گے۔

شرکاء نے واضح کیا کہ اگر مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو مزید سخت رد عمل کیلئے صوبائی اور مرکزی صحافتی تنظیموں کی مشاورت سے مشترکہ پروگرام تشکیل دیا جائے گا۔

اجلاس کے فیصلوں پر عملدرآمد، رابطوں اور مشاورت کیلئے چھ رکنی ایکشن کمیٹی تشکیل بھی دی گئی۔