کورونا کی آڑ میں دہشتگرد منظم ہونے لگے؟

عامر خان

پاکستان میں پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کی دہشتگردوں کیخلاف بھرپور کارروائیوں کے باعث ایک طویل عرصہ بعد امن و امان قائم ہوا ہے، دہشتگردی کیخلاف اس جنگ میں ہزاروں قیمتی انسانی جانوں کا نذرانہ دیا گیا ہے۔

دہشتگردوں نے اپنی مزموم کارروائیاں ملک بھر میں انجام دیں، تاہم افغان سرحدوں سے ملاپ، حکومتی رٹ کی کمزوری، عدالتی، پولیس و دیگر ریاستی ڈھانچہ کی عدم موجودگی اور مقامی قوانین آڑے آنے کیوجہ سے ان کے محفوظ ٹھکانے ضم شدہ قبائلی اضلاع سمجھے جاتے تھے۔

ان علاقوں میں پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اداوں کی جانب سے کئی آپریشنز کئے گئے. تاہم علاقہ کو دہشتگردی سے کلئیر قرار دینے کے باوجود فورسز ان علاقوں میں موجود رہیں، جو کہ ایک اچھی منصوبہ بندی تھی۔

اب جبکہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا ایمرجنسی نافذ ہے اور نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے، دوسری جانب دہشتگردوں کی قبائلی اضلاع میں موجودگی کی اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں۔ جس کا ثبوت گذشتہ تین ماہ کے دوران دہشتگردوں کیساتھ فورسز کی جھڑپوں میں اضافہ ہے، ان جھڑپوں میں جانی نقصانات بھی ہوئے ہیں۔

گذشتہ روز بھی شمالی وزیرستان میں پاک فوج نے سات دہشت گرد ہلاک کئے، اس مقابلے میں چار فوجی جوان بھی جام شہادت نوش کر گئے۔

اکٹھے کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ تین ماہ کے عرصہ میں صرف وزیرستان میں اب تک 27 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے اور وزیرستان سے ملحقہ علاقوں بشمول ٹانک، بنوں اور ڈی آئی خان میں 5 دہشت گرد کو ان کے انجام تک پہنچایا گیا اور متعدد گرفتار بھی کیے گئے۔ ہلاک ہونے والے ان دہشتگردوں میں بڑا نام کمانڈر عبد الرحمان عرف لالا تھا، جبکہ گرفتار ہونے والوں میں بڑا نام وزیرستان سے تعلق رکھنے والا دہشت گرد نور اسلام تھا۔

یاد رہے کہ نور اسلام وہی دہشتگرد ہے، جس نے خولی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میجر یحییٰ جیسے بہادر سپوت کا سر ان کے جسم سے جدا کیا اور ساتھ لے جاکر اپنے یزید صفت امیر کی خدمت میں پیش کیا اور وہاں سے چالیس لاکھ روپے انعام وصول کیا تھا۔ علاوہ ازیں کوئٹہ، کراچی، پشاور، بہاولنگر، پشین، مہمند اور سوات میں مختلف کارروائیوں میں فورسز نے پاکستان تحریک طالبان اور بی ایل اے کے 21 دہشت گرد ہلاک اور متعدد گرفتار بھی کئے۔

ان ہلاک ہونے والوں میں لکی مروت میں فلائنگ کوچ پر حملہ کرکے چودہ لوگوں کو شہید کرنے والے گروپ اور کالعدم حبیب اللہ گروپ کے پانچ دہشتگرد بھی شامل ہیں۔

یوں صرف گذشتہ تین ماہ کے دوران ملک بھر میں 53 دہشت گرد ہلاک کیے گئے، اسی عرصہ میں وزیرستان اور ملحقہ علاقوں میں دہشتگردوں کیخلاف لڑنے والے پاک فوج کے 14 جوان شہید ہوئے، جن میں ایک کرنل اور ایک کیپٹن بھی شامل ہیں۔

اگر شمالی اور جنوبی وزیرستان کی بات ک جائے تو یہاں بھی ماضی کے مقابلے میں حالات کافی بہتر ہیں، مختلف ادوار میں مذکورہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بتایا کہ ان علاقوں میں اب پاک فوج کا کنٹرول ہے اور طالبان نہیں ہیں، امن قائم ہے۔ ان کا کا کہنا تھا کہ طالبان کے دور میں حالات بہت خراب تھے، فورسز کے آپریشن کیوجہ سے ہم سکون میں ہیں۔

فی الوقت بھی فورسز بارڈر پر موجود ہیں اور باڑ لگانے کا کام بھی جاری ہے، ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشتگرد دوبارہ کہاں سے آگئے۔؟

مقامی رپوش شدت پسند دوبارہ منظم ہو رہے ہیں، کوئی مقامی سطح پر ان کے سہولت کار کا رول ادا کر رہا ہے، یا پھر کہیں کوئی ریاستی سطح پر کوتاہی ہو رہی ہے۔ فورسز کی جانب سے دہشتگردوں کی پیش قدمی کو روکنا اور ان کیخلاف کارروائیاں خوش آئند ہیں، تاہم کہیں نہ کہیں کچھ مختلف ضرور ہو رہا ہے۔

قبائلی علاقوں میں فورسز کیلئے ایک درد سر پی ٹی ایم کی شکل میں بھی موجود ہے، پی ٹی ایم کے رہنماوں کا کہنا ہے کہ پاک فوج دہشتگردوں کیخلاف نہیں بلکہ بے گناہ پختونوں کو نشانہ بنا رہی ہے، اکثر گرفتار لوگوں کو پی ٹی ایم کے پریشر پر چھوڑا بھی گیا ہے۔

پی ٹی ایم رہنماء اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ کوئی مجھے پچاس دہشت گردوں کا بتا دے، جو مارے گئے ہوں۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پی ٹی ایم کو افغانستان اور ہندوستانی را کی سپورٹ حاصل ہے، جس کا مقصد پاکستان میں پختونوں کے حقوق کے نام پر افراتفری پیدا کرنا اور پاک فوج کو بدنام کرنا ہے۔ ان حالات میں جب ایک جانب کورونا جیسی مہلک ترین بیماری نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ممکن ہے کہ دہشتگرد اور ان کے سہولت کار اس موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہوں۔

ان دہشتگردوں کو جہاں سے بھی آکسجن مل رہی ہے، اس کا سدباب کرنا اور دہشتگردوں و ان کے سہولت کاروں کا فوری طور پر قلع قمع کرنا ضروری ہے، کہیں کورونا ایمرجنسی کی آڑ میں ان ملک دشمن عناصر کو اب بار پھر سے منظم ہونے اور بے گناہوں عوام و فورسز کا خون بہانے کا موقع میسر نہ آجائے۔