باجوڑ میں رواں سال دوسو ایکڑ رقبے پر زیتون کے باغات لگایں گے

ضلع باجوڑ میں محکمہ زراعت (توسیع )باجوڑ کے طرف سے سول کالونی جرگہ ہال میں لوگوں میں زیتون کے افادیت و اہمیت اجاگر کر نے کے حوالے سے ایک روزہ آگاہی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ممبر قومی اسمبلی حلقہ این اے 40باجوڑ حاجی گل داد خان، ڈائریکٹر زراعت (توسیع ضم شدہ اضلاع فضل وہاب، باجوڑ کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل اور فنانس جمال الدین، سہیل اور اے سی خار، ضلعی رازعت(توسیع) آفیسر ضیاء لااسلام داوڑ،اسسٹنٹ زراعت آفیسر سبحان الدین اور دیگر سرکاری حکام سمیت باجو ڑ کے سیاسی اور قبائلی عمائدین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

ورکشاپ سے اپنے ابتدائی خطاب میں ضلعی آفیسر زراعت (توسیع) ضیاء لا اسلام داوڑ نے کہا کہ اس ورکشاپ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ باجوڑ کے لوگوں میں زیتون کے پودہ جات کے بارے میں آگاہی و شعور پیدا کیا جائے اور اس کے افادیت اور اہمیت کے بارے میں اپ کو پتہ چلے کیونکہ زیتون کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا پتہ با آسانی لگایا جاسکتا ہے۔

انہوں کہ للہ نے باجوڑ پر خصوصی احسان کیا ہے کہ باجوڑ کی آب و ہوا اس کے لئے بہت موزوں بنایا ہے اور باجوڑ میں ایک کروڑ گیارہ لاکھ صرف جنگلی زیتون موجود ہے جس کے پوند کاری کا کا م محکمہ زراعت(توسیع) کے طرف سے ترجیحی بنیادوں پر پچلے سولہ سالوں سے جاری ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ زراعت (توسیع) بھی باجوڑ کے لوگوں کو ہر سال زیتون کے باغات لگا رہے ہیں اور رواں سال بھی دوسو ایکڑ رقبے پر زیتون کے باغات لگائینگے۔

انہوں نے کہا کہ زیتون نہ صرف روغن (تیل) بلکہ اس کے پتے بھی کئی بیماریوں کے لئے اکسیر ہے۔زیتون کے طبعی فوائد کے ساتھ ساتھ یہ ایک نقداور پودہ بھی ہے اور اس کے باغات سے چند سالوں میں خوب منافع کمایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے باجوڑ کے تمام لوگوں اور خصوصا زمینداروں پر زور دیا کہ وہ زیتون کے باغات لگائے اور ساتھ ساتھ جنگلی زیتون کے تحفظ بھی کریں۔ اور اس کے پوند کاری یا دوسرے مد میں اگر کسی کو کوئی مدد کے ضروت ہو تو وہ محکمہ زراعت باجوڑ سے کسی بھی وقت رابطہ کر سکتے ہے اس کے ساتھ بھر پور تعاون کیا جائے گا۔

ایم این اے حاجی گل داد خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے نہ صرف دوسرے جنگلات کے ترقی اور اس کے رقبہ بڑھانے پر توجہ دی ہے بلکہ زیتون کے لئے خصوصی پروگرام شروع کی ہے اور اس میں مزید اضافہ کریگی۔ کیونکہ زیتون سے باآسانی کثیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے باجوڑ کے عوام پر زور دیا کہ حکومت تو اپنی کوششیں کر رہی ہے لیکن اس سلسلے میں اپ کا تعاون بھی انتہائی اہم ہے اس لئے یہ پیغام گھر گھر تک پہنچائیں کہ زیتون لگاؤ، بیماریاں بگاؤ۔

اس کے ساتھ ساتھ زیتون ماحول کے صفائی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس سے ہم دونوں فوائد با آسانی حاصل کر سکتے ہیں۔ حکومتی تعاون ہمیشہ محکمہ زراعت (توسیع) باجوڑ اور یہاں کے عوام کے ساتھ رہیگی۔

زیتون کے ماہر وڈائریکٹر محکمہ زراعت (توسیع) ضم شدہ اضلاع فضل وہاب نے ورکشاپ کے شرکاء کو زیتون کے پودوں کے اقسام، خواص اور اس کے لئے درکار موسم پر تفصیلی لیکچر دیا۔

انہوں نے زمینداروں کو زیتون کے باغات لگانے کے طر یقے بیان کئے اور کہا کے ایک ایکڑ رقبے پر کم از کم زیتون کے 110پودہ جات لگانا چائیے اور اس کو سالانہ گھریلوں ڈیران، کلشیئم، پوٹاش، سونا یوریا اور دیگر کھاد مناسب اور زرعی ماہرین کے مشورے سے ڈالنا چائیے۔

زیتون کے پودے سے تین سے چار سال میں پیداوار شروع ہوتی ہے اور اسی طرح ایک پودہ 25سے 35کلو گرام سالانہ پیداوار دیتی ہے اور فی کلو زیتون تیل کی قیمت مارکیٹ میں 1800روپے ہیں اسی حساب سے زیتون ایک نقداور پودہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پوری قبائلی اضلاع زیتون کے لئے موزوں ہے لیکن باجوڑ کی آب و ہوا زیتون کے پودوں کے لئے انتہائی موزوں ہے یہاں کے آب و ہوا اور اٹلی اور سپین کے آب و ہوا میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن اٹلی اور سپین پوری دنیا کوزیتون کے خودری تیل کی سپلائی کر تا ہے جبکہ ہم نے اپنی ملکی خوردنی تیل کی ضرورت بھی پوری نہیں کی اور ہر سال 4ارب روپے اس کے خریداری پر ہم خرچ کر تے ہیں جو ایک توتشویش کے بات ہے۔

انہوں نے کہ یہ ہر ایک کے زمداری ہے کہ زیتون کے فروع میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایڈیشنل ڈی سی جنرل جمال الدین اور ایڈیشنل ڈی سی فنانس سہیل نے اپنے اپنے خطاب میں مختصرا کہا کہ ضلعی انتظامیہ محکمہ زراعت کے ساتھ زیتون کے فروع میں خصوصی طور پر اور دوسرے باغات اور زراعت کے ترقی میں ہر ممکن تعاون کریگی اور اس سلسلے میں کئی پراجیکٹ پر کام شروع ہوا ہے اور مزید پر کم جلد شروع ہوگی۔ کیونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈھی کی حیثیت رکھتا ہے۔

ورکشاپ کے شرکاء سے ضلع لوئیر دیر تالاش سے آئے ہوئے زیتون کے باغات کے ایک زمیندار محمد اسرارنے زیتون کے باغات اور پیدوار کے بارے میں اپنے تجربات شریک کئے۔ انہوں نے کہ کہا 2003 میں انہوں محکمہ زراعت کے مدد سے 13ہزار پودہ جات پر مشتمل زیتون کا ایک باغ لگایا تھا اس وقت اس کو یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ بھی اتنی منافع بخش کام ہے کیونکہ ہمارے علاقے کے اکثر قبریستانوں میں زیتون کے صدیوں پرانے درخت موجود تھے اور کوئی اس کے طرف توجہ نہیں دے رہا تھا۔  لیکن اس نے جو باغ لگایا تھا تو پانچ سال بعد اس سے پیداوار شروع ہوئی اور پچلے سال انہوں نے اس سے خوب منافع کمایا ہے اور موجود وقت میں اس کے ساتھ 15افراد باغ میں مستقل کام کرتے ہیں اور اس کا روزگار اسی باغ سے وابستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس باغ میں انہوں نے ایک زیتون کے نرسری بھی بنائی ہے اور ہر سال ہزاروں کے تعداد میں اس کے پودے لوگوں میں فروخت کر تے ہیں۔ انہوں نے باجوڑ کے لوگوں پر زور دیا کہ باجوڑ میں زیتون کے باغات زیادہ سے زیادہ لگائے اور وہ دن دور نہیں کہ بہت جلد باجوڑ میں دوسرے علاقوں کے لوگ کام کرنے کے لئے آئینگے۔ورکشاپ کے اخر میں چند زمینداروں میں زیتون کے پودہ جات مفت تقسیم کئے گئے اور زیتون شجر کاری کا باقاعدہ آغاز کیا۔