درہ آدم خیل میں الیکشن بائیکاٹ جاری، ووٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر

نئے ضم شدہ اضلاع میں آج صوبائی اسمبلی کے پہلے انتخابات ہورہے ہیں تاہم کوہاٹ کے نیم قبائلی علاقے درہ آدم خیل میں عوام کی اکثریت نے پولنگ کا بائیکاٹ کرکھا ہے جن کا کہنا ہے کہ فاٹا انضمام انہیں منظور نہیں اور اس سلسلے میں پولنگ کا بائیکاٹ کرکے وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔

مقامی لوگوں کے مطابق الیکشن کےبائیکاٹ کا اعلان ملک صابر، جعفر آفریدی اور اکبر خان نامی انضمام مخالف مشران نے کیا ہے جنہوں نے اس سلسلے میں نہ صرف گزشتہ کچھ دنوں سے مختلف علاقوں کے دورے کیے بلکہ گزشتہ روز درہ بازار میں باقاعدہ جلوس نکالے اور لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنا ہم خیال بنایا۔

درہ بازار میں آج بھی وقفے وقفے سے جلوس نکالے جاتے رہے جن کے شرکاء نے ‘انضمام نامنظور’، ‘الیکشن بائیکاٹ’  اور اس طرح کے دیگر نعروں پر مبنی بینر اٹھائے رکھے اور نعرے لگائے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق درہ آدم خیل میں رجسٹرڈ ووٹروں کی مجموعی تعداد 74 ہزار 510 ہے جن میں سے 30 ہزار 684 مرد ووٹرز جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 44 ہزار 826 ہے، سب ڈویژن میں کل 54 پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔

بائیکاٹ کے باعث دیگر حلقوں کے مقابلے میں درہ ادم خیل میں کچھ خاص سرگرمیاں نظر نہیں آرہیں اور اکثر پولنگ سٹیشنوں میں تادم پول کیے گئے ووٹوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی ممتاز بنگش کے مطابق علاقے میں مرد ووٹرز کی نسبت خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ اور بھی کم ہے۔

ممتاز بنگش کے مطابق شمل خیل پولنگ سٹیشن کے علاوہ درہ بازار کے دو پولنگ سٹیشنوں کا انہوں نے خود دورہ کیا اور ہر پولنگ سٹیشن میں آدھ آدھ گھنٹہ رکے رہے تاہم انہیں کوئی ایک خاتون ووٹر بھی نظر نہیں ائی۔

سینئر صحافی کے مطابق بائیکاٹ کا اعلان کرنے والے مشران مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ لوگ پولنگ سٹیشنوں کا رخ نہ کریں تاہم اس سلسلے میں الیکشن کمیشن اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے کوئی ایکشن ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔

ذرائع کے مطابق بعض مقامات پر سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے ورکران اور الیکشن بائیکاٹ کرنے والوں کے درمیان لڑئی جھگڑے بھی ہوئے ہیں۔

ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں درہ ادم خیل کے گاؤں جرمنی کے رہائشی ثاقب نے بتایا کہ ان کے گاؤں کے جو لوگ ووٹ پول کرنے جارہے تھے بائیکاٹ کرنے والوں نے انہیں زبردستی روکنے کی کوشش کی جس پر دونوں فریق باہم مشت و گریباں ہوئے۔

ثاقب آفریدی کا کہنا تھا کہ انہوں نے قبائی علاقوں کے خیبرپختونخوا میں انضمام کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اور آج بھی الگ سوبے کے مطالبے/موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت انہیں انٹرنیٹ، ٹیلی فون سروس اور بجلی ایسی بنیادی سہولیات نہیں دے رہی تو انتخابات کے انعقاد کی بھی چنداں ضرورت نہیں۔

ثاقب آفریدی لوگوں کو زبردستی پولنگ سے روکنے کے حق میں بھی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک قوی فیصلہ جس کی پابندی ہر مقامی فرد پر لازم ہے۔

درہ آدم خیل پی کے 115 کا حصہ ہے جو چھ سابقہ ایف آرز پر مشتمل صوبائی حلقہ ہے جن میں ایف آر کوہاٹ درہ آدم خیل کے علاوہ سب ڈویژن حسن خیل پشاور، سب ڈویژن جنڈولہ ٹانک، سب ڈویژن درزندہ ڈی آئی خان، سب ڈویژن جانی خیل بنوں اور سب ڈویژن بیٹنی لکی مروت شامل ہیں۔

حقہ میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 91 ہزار 64 ہے جن میں سے 1 لاکھ 16 ہزار 444 مرد جبکہ 74 ہزار 620 خواتین ہیں۔

حلقے میں 163 پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے ہیں جن میں سے صرف 13 خواتین اور 13 ہی مردوں کیلئے مخصوص ہیں جبکہ باقی 167 پولنگ سٹیشنیں مشترکہ ہیں۔

پی کے 115 سے کل 13 امیدوار میدان میں ہیں جن میں تین جماعتی تو باقی دس آزاد امیدواران ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے امیدواروں میں جے یو آئی ف کے شعیب خان آفریدی، پی ٹیی آئی کے عبدالرحمٰن آفریدی اور اے این پی کے غلام قادر شامل ہیں اور ماہرین کے مطابق ان تینوں میں سخت مقابلے کی توقع ہے۔

ان تینوں امیدواروں میں سے شعیب افریدی اور عبدالرحمٰن آفریدی کا تعلق درہ ادم خیل سے ہے جہاں دونوں سیاسی جماعتوں کے ووٹرز اور سپورٹرز کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے جن کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پولنگ سٹیشن لائیں تاہم آج صبح سے انہیں اس سلسلے میں کچھ خاص کامیابی نہیں ملی۔

درہ آدم خیل کے فیروز خیل گاؤں کے رہائشی مجید آفیدی نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ ان کے گاؤں سمیت مختلف علاقوں میں سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے ورکرز نے ووٹ پول کیا ہے جبکہ باقی لوگوں کی اکثریت نے الیکشن کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔

دوسری جانب درہ بازار کے رہائشی تحریک انصاف کے رہنما ولی آفریدی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں ہیں اور بڑی حد تک بائیکاٹ توڑننے میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں تاہم پھر بھی بعض لوگ پولنگ سٹیشن جانے سے انکاری ہیں۔

انضمام کی مخالفت میں الیکشن کے بائیکاٹ کو درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی طیب آفریدی بھی دانشمندی قرار نہیں دیتے جن کا کہنا تھا کہ درہ کے لوگوں کی انضمام کیمخالفت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں اسلحہ اور کوئلے کی کانوں کا کاروبار بہت ہے اور لوگ ڈرتے ہیں  کہ انضمام کے ساتھ یہ دونوں کاروبار بند ہوجائیں گے۔

"مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ پولیس کی موجودگی میں کوئی بھی اسلحہ کی مارکیٹ کی طرف نہیں آئے گا جس کی وجہ سے یہ کاروبار ختم ہوجائے گا اور اسی طرح انہیں یہ خوف بھی لاحق ہے کہ حکومت کوئلے کی یہ کانیں اپنی تحویل میں لے لے گی۔” طیب نے کہا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اگر ان لوگوں کے خدشات کو دور کرے تو وہاں بھی انضمام کی مخالفت میں کمی آجائے گی اور مستقبل میں وہ الیکشن ایسے اہم جمہوری عمل کا بائیکاٹ نہیں کریں گے۔