اسلام آباد میں افغانستان کی صورتحال پر پر اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس ہوا جس میں پاکستان کی دعوت پر 20 ممالک کے وزرائے خارجہ سمیت 10 ممالک کے نائب وزیر خارجہ اور 70 وفود شریک ہیں
یہ پہلا موقع ہے کہ 1974ء کے بعد او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کی میزبانی پاکستان کر رہا ہے۔
او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ 41 سال بعد او آئی سی کا اجلاس پاکستان میں ہو رہا ہے، معزز مہمانوں کو پاکستان آمد پر خوش آمدید کہتا ہوں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جتنی مشکلات افغانوں نے اٹھائیں، کسی اور ملک نے نہیں اٹھائیں، کسی بھی ملک کو افغانستان جیسی صورتحال کا سامنا نہیں رہا.
افغانستان 4 دہائیوں سے خانہ جنگی کا شکار رہا ہے، اور وہاں کے حالات کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان نےاٹھایا اور سب سے زیادہ پاکستان ہی متاثر ہوا، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے جان کی قربانی دی۔
او آئی سی اجلاس سے خطاب میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اجلاس میں شرکت کرنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں، افغانستان کے عوام کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے.
اجلاس افغانستان کے لوگوں کے مسائل سے آگاہی کے لیے ہے، غیر معمولی اجلاس کے لیے او آئی سی کا پاکستان پر اعتماد خوش آئند ہے، 40سال قبل بھی پاکستان نے افغانستان کے لئے اسی طرز کا اجلاس بلایا تھا.
یہ اجلاس افغانستان کی بقا کے لیے اہم ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کا معاشی بحران خطے کےلیے تباہ کن ہوگا، ورلڈ فوڈ پروگرام افغانستان میں خوراک کے مسئلے کی نشاندہی کر چکا ہے.
دنیا تمام چیزوں سے بالاتر ہو کر افغان مسئلے پر آگے بڑھے، پاکستان ایک بار پھر افغانستان میں انسانی بحران کے حل کے لیے سرگرم ہے، افغانستان کو انسانی المیے سے بچانے کیلئے مسلم امہ اور عالمی دنیا اپنا کردار ادا کرے.
افغانستان کے معاشی حالات دنیا کی توجہ چاہتے ہیں، اس وقت افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، افغانستان کا معاشی بحران خطے کو بری طرح متاثر کرے گا۔