امریکیوں کے مکمل انخلا تک اپنی فوج افغانستان میں رکھیں گے، صدر جو بائیڈن

امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ تمام امریکی باشندوں کے مکمل انخلا تک امریکی افواج افغانستان میں رہیں گی خواہ ان کی دی ہوئی ڈیڈلائن ختم ہی کیوں نہ ہو جائے کیونکہ اس سے قبل وہ 31 اگست تک تمام امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کا اعلان کر چکے ہیں۔

واضح رہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور اس پر طالبان کی پیشقدمی اور آخر کار کابل فتح کرنے پر اس وقت صدر جوبائیڈن پر شدید تنقید کی جارہی ہے کیونکہ ان کے فیصلوں کو جلدبازی اور ناکامی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

افغانستان میں اب بھی غیریقینی صورتحال ہے اور کابل میں افغان باشندوں سمیت ہزاروں مغربی اور امریکی باشندے اب بھی موجود ہیں جبکہ پورے شہر پر طالبان کا سخت پہرہ ہے۔

اے بی سی نیوز سے انٹرویو میں صدر بائیڈن نے کہا کہ وہ ڈیڈلائن سے پہلے امریکی اور اتحادی ممالک کے باشندوں کو افغانستان سے نکالنے کی حتی المقدور کوشش کرے گا۔ اگر اس کے بعد بھی کوئی امریکی وہاں رہ جاتا ہے تو ہماری افواج انخلا تک وہیں ٹھہری رہیں گی۔

کابل اور افغانستان کے غالب حصے پر تسلط کے بعد اب بھی 15000 سے زائد امریکی باشندے افغانستان میں موجود ہیں۔

وزیرِدفاع لائیڈ آسٹن ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ امریکی افواج کے پاس اس وقت اتنی قوت اور وسائل نہیں کہ وہ کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کو بڑھاتے ہوئے امریکیوں کو جمع کرسکے اور خطرے سے دوچار افغانیوں کو اپنی نگرانی میں بحفاظت واپس لا سکے۔

تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ اس وقت کابل ایئرپورٹ پر 4500 امریکی فوجی حفاظت کی غرض سے موجود ہیں۔

صدر جوبائیڈن نے اسی انٹرویو میں یہ بھی کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ طالبان نے خود کو تبدیل کیا ہے اور اگر وہ چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری طالبان کو تسلیم کرے تو اس کا فیصلہ خود انہیں کرنا ہوگا۔

صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ طالبان اس وقت اپنی شناخت کے بحران سے گزر رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ انہیں باقاعدہ قانونی حکومت کے تحت بین الاقوامی برادری قبول کرے اور اس کا فیصلہ خود طالبان کو کرنا ہوگا۔

انہوں نے طالبان سے کہا کہ وہ عام افغانی کی زندگی بہتر بنانے پر کام کرے کہ وہ کھا سکیں، معاشی مواقع حاصل کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ طالبان پر خواتین کے حقوق یقینی بنانے کے لئے عسکری کی بجائے سیاسی اور سفارتی دباؤ برقرار رکھا جائے گا۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ طالبان کی فکر تبدیل ہوئی ہے بلکہ وہ خود کو تسلیم کرانا چاہتے ہیں اور شناختی بحران سے گزر رہے ہیں۔