پشاور میں امارات اسلامی کا جھنڈا لہرانے والے گرفتار

افغانستان سے امریکی فورسرز کے انخلا اور طالبان کی جانب سے افغانستان کے 85 فیصد حصے پر قبضے کے دعوے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے اثرات خیبر پختون خوا اور اس کے ضم اضلاع پر مرتب ہونے لگے.

افغان طالبان کے بعد اب پشاور کے مضافاتی علاقوں میں بھی ان کے حمایتیوں نے سر اُٹھانا شروع کر دیا ہے جس سے نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے بلکہ پشاور کے باسیوں کو بھی ایک انجانے خوف نے گھیر لیا ہے.

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس حوالے سے باقاعدہ اپنا ہوم ورک شروع کر دیا ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ دنوں پشاور کی مقامی پولیس نے چمکنی اور ریگی کے علاقوں میں طالبان کی حمایت کرنے والے مختلف افراد کو حراست میں لیا.

حراست میں لینے والوں کے خلاف باقاعدہ دہشگردی ایکٹ کے تحت مقدمات بھی درج کئے گئے۔

انسدادی دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پشاور میں مقامی دینی مدرسہ پر سابق افغان طالبان حکومت امارات اسلامی کا جھنڈا لہرانے کے الزام میں گرفتار ملزمان کو تفتیش کے لیے دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔

استغاثہ کے مطابق گزشتہ روز تھانہ چمکنی کی حدود میں واقع ایک دینی مدرسہ پر محمد عمران اور عرفان اللہ ساکنان مہمند ضلع حال پھندو پشاور نے افغانستان کی سابق طالبان حکومت امارات اسلامی کا جھنڈا لہرایا.

مقامی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دونوں ملزمان کو گرفتار کر کے تنظیم کی ممبرشب 11 ایف اور تشہیر 11 جی سمیت دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔

دونوں ملزمان کو جب عدالت میں جج کے روبرو پیش کیا گیا تو اس حوالے سے پولیس نے عدالت کو بتایا کہ دونوں گرفتار ملزمان سے تفتیش کی ضرورت ہے لہذا عدالت جسمانی ریمانڈ کی درخواست منظور کر کے دونوں ملزمان کو تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالہ کرے تاکہ ملزمان سے مکمل تفتیش ہو سکے۔

عدالت نے پولیس کی جانب سے دائر جسمانی ریمانڈ کی درخواست منظور کرتے ہوئے دونوں ملزمان کو تفتیش کے لیے دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالہ کر دیا جن کو کل دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

اسی طرح پشاور کے علا قے بورڈ بازار میں امارات اسلامی کا جھنڈے لہرانے اور ان کے حق میں نعرہ بازی کرنے والے دو افراد کو ریگی پولیس نے گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔

پولیس کے مطابق مزید گرفتاری کیلئے ٹیمیں تشکیل دیدی گئی ہیں، باقی افراد کو بھی بہت جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔

چند روز قبل سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چند افراد امارات اسلامی کے جھنڈے لہرا رہے تھے اور طالبان کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پشاور پولیس نے نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات شروع کیں جس سے معلوم ہوا کہ افغانستان میں امارات اسلامی کے اہم ممبر مولانا عبدالرشید شہید ہو گئے تھے.

ان کی میت کو افغانستان سے پاکستان لایا اور بورڈ بازار سے راحت آباد کے راستے ریگی قبرستان میں نماز جنازہ ادا کر دیا گیا.

جنازے کے دوران شریک افراد نے افغان طالبان کے حق میں نعرے لگائے اور جھنڈے بھی لہرا رہے تھے جس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے گزشتہ روز مولانا معروف جان سکنہ ریگی فقیر آباد کلے اور مولانا اسماعیل سکنہ ہری چند باغ کلے کو گرفتار کر کے ان کے خلاف دفعہ 11F,11G, act 1997,148, 149کے تحت مقدمہ درج کر کے مزید تحقیقات شروع کر دیں۔

محکمہ پولیس خیبر پختون خوا کا کہنا ہے کہ پشاور سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں ایسے عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کریں گے جو صوبے کے پرامن ماحول کو خراب کروانا چاپتے ہیں۔

گزشتہ روز پشاور پریس کلب میں صحافیوں کے ساتھ غیررسمی گفتگو کے دوران انسپکٹر جنرل اآف پولیس خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا کہ افغانستان میں سامنے آنے والی صورتحال کا اندازہ ہے، اس کے لئے تمام تیاریاں مکمل کی ہیں،

انہوں نے کہا ہے کہ ”ضم اضلاع میں تعینات پولیس اہلکاروں کی استعداد کار کو بڑھانے کیلئے اقدام اٹھائے ہیں، ان کی تمام ضروریات پوری کر رہے ہیں، دہشت گردی کیخلاف جنگ کے دوران پولیس نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔”

افغانستان میں تیزی سے تبدیل ہو رہی صورتحال اور خیبر پختون خوا پر اُس کے ممکنہ اثرات حوالے سے حوالے سے سینئر صحافی اور افغان امور کے ماہر فرید اللہ خان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے حق میں پرامن احتجاج ہر شہری کا بنیادی حق ہے، اگر اس احتجاج سے ریاست اور ریاستی ادرواں کو کوئی نقصان نہیں تو احتجاج میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ پشاور سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں کشمیر، فلسطین اور دیگر مسلم ممالک کے لیے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔

دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو امریکہ نے خود طالبان کی قوت کو تسلیم کیا ہے اور سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے قطر میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کیا ہے اور ایک تاثر یہ ہے کہ امریکہ نے انخلا کے بعد طالبان کو ایک طرح سے فری ہینڈ دیا ہے.

اس طرح اگر طالبان کی اعلیٰ قیادت کو دیکھا جائے تو وہ پہلے کی نسبت زیادہ سخت گیر نہیں رہے اور میڈیا کے ذریعے انہوں نے افغانستان کے پرامن حل کی طرف اشارے دیئے ہیں، اگر افغانستان کی موجودہ صورتحال کا سیاسی اور پرامن حل نکل آئے تو اس کے پاکستان سمیت جنوبی ایشیاء اور دنیا کے دیگر ممالک پر بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔

افغانستان اب مزید جنگ وجدل کا متحمل نہیں ہو سکتا اور اس بات کاا ندازہ اس بار طالبان قیادت کو ہو چکا ہے لہذا پاکستان کی سیاسی اور خصوصی طور پر مذہبی جماعتیں افغانستان کے پرامن اور سیاسی حل کے لئے ٹھوس اقدامات کریں کیونکہ طالبان قیادت پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔