خیبرپختونخوا میں ضم اضلاع کے لیے 30 کروڑ ڈالر کی امداد طلب

وفاقی حکومت، خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں بنیادی سہولیات کا معیار اور رسائی بہتر بنانے کے لیے عالمی بینک کے انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن (آئی ڈی اے) سے 30 کروڑ ڈالر امداد حاصل کر رہی ہے۔

ان اضلاع کے انضمام کے بعد یہاں کے رہائشیوں نے صاف پانی، تحفظ خوراک، صحت اور تعلیم کے حوالے سے بہتر سہولیات کی توقعات میں اضافہ ظاہر کیا تھا۔ سال 2018 میں ضم ہونے والے علاقوں کو خیبر پختونخوا کے قانونی نظام اور حکومت کے ماتحت کردیا گیا تھا۔

اس منصوبے کا نام ‘خیبرپختونخوا رورل انویسٹمنٹ اینڈ انسٹیٹیوشنل سپورٹ’ ہے جس میں تعاون کے 3 شعبوں پر توجہ دی جائے گی جس میں دیہی بنیادی ڈھانچے کے فرق کو دور کرنے کے لیے کمیونٹی انفرااسٹرکچر گرانٹ، طے کردہ معیار کے خلاف خدمات کے اہم شعبوں میں بنیادی خدمات کی فراہمی پر شہریوں کی نگرانی اور مقامی صلاحیت کو فروغ دینے کے لیے ادارہ جاتی ترقی اور برادری کے متحرک ہونے کے علاوہ شفافیت، احتساب کو مضبوط بنانا اور مقامی ترقی کے لیے محکموں کی مقامی کمیونٹیز کے ساتھ شراکت داری کی صلاحیت شامل ہے۔

ڈان نیوز کے پاس منصوبے کے دستاویز کے مطابق پورے ملک کے مقابلے ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کی صورتحال سب سے خراب ہے، جہاں 22 لاکھ خواتین میں سے 56 فیصد کے شناختی کارڈز ہی موجود نہیں۔

اس بات کا بھی خطرہ موجود ہے کہ دور دراز اور تاریخی طور پر پسماندہ اضلاع مثلاً کوہستان، ٹانک، ڈیرہ اسمٰعیل خان، بٹگرام، دیر بالا، شانگلہ اور ہنگو جنہیں کم اور بکھری ہوئی آبادی کی وجہ سے صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ میں کم حصہ ملتا تھا انہیں شاید اس منصوبے سے بھی کم فائدہ پہنچے۔

دور دراز ہونے، ٹرانسپورٹ کے ڈھانچے کے فقدان، سہولیات کی صورتحال کے علاوہ قدامت پسند اور پدر شاہی سماجی ڈھانچے کی وجہ سے ان علاقوں کی برادریوں میں خواتین زیادہ تر تعلیم اور بنیادی صحت کی دیکھ بھال حاصل کرنے سے محروم رہتی ہیں۔

یہ قبائلی علاقے 27 ہزار مربع کلومیٹرز پر مشتمل ہیں جو 7 اضلاع میں بٹے ہوئے ہیں، ہر ضلع میں ایک مختلف قبائلی رنگ اور انتظامی ہیڈکوارٹرز ہے۔

یہاں زیادہ تر پختون افراد مقیم ہیں، ان اضلاع میں 2 درجن سے زیادہ پختون قبیلے آباد ہیں اور زیادہ تر علاقوں میں چند بڑے قبیلوں کا غلبہ ہے۔اراضی، قدرتی وسائل پر دہائیوں تک چلنے والے جھگڑے اور دشمنیاں عام ہیں، اس منصوبے میں ان مقامی سطح کے تنازعات کے انتظام کے لیے ایک حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہوگی۔