شمالی وزیرستان: ڈاکٹروں کی عدم موجودگی سے سول ہسپتال غیر فعال

شمالی وزیرستان تحصیل میرعلی گلشن اڈہ حسوخیل میں واقع سول ہسپتال دوبارہ تعمیر تو ہوگیا لیکن ڈاکٹروں کی عدم موجودگی سے غیر فعال ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق سول ہسپتال کا افتتاح 1964 میں کیا گیا تھا، اس وقت تقریبا 5000 پانچ ہزار آبادی کے لوگ یہاں علاج کرانے آتے تھے۔ اس ہسپتال میں ڈاکٹر و دیگر عملہ تعینات تھا۔ سال دو ہزار سے لیکر 2020 تک تقریباً یہ ہسپتال بند رہا۔

آپریشن ضرب سے قبل اس ہسپتال کو شدت پسندوں نے اسے اپنا ٹھکانے کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ علاقے کی عوام کے مطابق شدت پسند گروہ نے سول ہسپتال کو جیل ، ٹریننگ سنٹر کے طور پر استعمال کیا تو قریبی مختلف گاؤں حسوخیل ، ملاگان ، عمرکی کلہ ، بڑوخیل ، خوشحالی ، حیدر خیل وغیرہ کے لوگ مجبوراً اپنے مریضوں کو تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال میرعلی ، ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرانشاہ ، یا ملحقہ ضلع بنوں کے ہسپتال میں لے جانے پر مجبور ہوئے تھے۔ سال 2014 میں آپریشن ضرب عضب شروع ہونے سے قبل اس ہسپتال کو نہ صرف کافی نقصان پہنچا بلکہ مکمل طور پر اس کی بلڈنگ منہدم ہوئی۔
ضرب عضب آپریشن کے بعد سال 2017 کو مقامی لوگوں کی اپنے آبائی علاقے میں واپسی ہوئی تو سول ہسپتال حسوخیل کی نان فنکشنل ہونے کی وجہ سے عوام کو مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔ آپریشن کے 2 دو سال بعد یعنی 2019 دو ہزار انیس کو حکومت نے تعمیر نو اور بحالی کے لیے فنڈز جاری کئے جس کے تحت اس ہسپتال پر بھی کام شروع کیا گیا جو اب مکمل ہوچکا ہے لیکن ہسپتال بلڈنگ مکمل ہونے کے باوجود مقامی لوگ تاحال یہاں علاج کرنےسے محروم ہیں۔

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے عوامی نیشنل پارٹی کے سابق امیدوار برائے قومی اسمبلی ملک نثار علی خان کا کہنا ہے کہ بلڈنگ کی تعمیر کے بعد 8 رہائشی کوارٹر پر بھی کام کا آغاز کیا جائے جہاں باہر سے آئے ہوئے ڈاکٹرز کےلئے رہنے میں آسانی ہوگی، انہوں نے کہا کہ ہسپتال میں ایکسرے مشین کی سہولت ، لیبارٹری ، میڈیکل سٹور وعیرہ سب سامان بھی موجود ہے۔ ہسپتال میں 5 پانچ ہیلتھ ٹیکنیشن تعینات ہے مگر اب تک ایک بھی ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹر سٹاف موجود نہیں۔

ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ محض یہ ہسپتال نہیں شمالی وزیرستان میں سینکڑوں ڈسپنسری موجود ہے جو غیر فعال ہے جس کے لئے محمکہ صحت خیبر پختونخوا کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ کے پاس اتنی کیپیسٹی نہیں کہ وہ چھاپے مارکر تمام ہسپتالوں کو فعال بنائے۔

یوتھ اف وزیرستان کے صدر نور اسلام داوڑ نے ٹی این این کو بتایا کہ سول ہسپتال حسوخیل میں ڈاکٹرز ، صحت عملہ نہ ہونے کے باعث مریض اس ہسپتال کا رخ نہیں کرتے ان کا کہنا تھا کہ وزیرستان کے لوگوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے حکومت سے ہسپتال میں ڈاکٹر ، لیڈی ڈاکٹرز دیگر سٹاف اور سہولیات کی فوری دستیابی کی اپیل کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ہسپتال کو مکمل طور پر فعال کیا جائے تاکہ تقریباً پچاس ہزار آبادی کے لئے قائم اس نئے بلڈنگ سے مریضوں کو علاج کرنے میں آسانی ہو۔

دوسری جانب ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر شمالی وزیرستان ڈاکٹر خلیل داوڑ سے جب رابطہ ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ بہت جلد سول ہسپتال حسوخیل کو ڈاکٹر سٹاف ٹرانسفر کرینگے اور عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرینگے۔
انہوں نے ٹی این این سے اپنی گفتگو میں کہا کہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر اکرم سافی ڈاکٹرز سٹاف تعینات کرنے کے لئے ہر قسم کوشش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔

اہل علاقے نے بھی ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان شاہد علی خان اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر سے مطالبہ کیا ہے کہ سول ہسپتال حسوخیل میں ڈاکٹرز اور لیڈی ڈاکٹرز کو تعینات کیا جائے تاکہ علاقے کی لوگ مستفید ہو اورتحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میرعلی پر بوجھ کم ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کے مقامی لوگ بھی گھر کی دہلیز پر اور بآسانی اپنا علاج کراسکیں.